تخلیق کار کی موت
وہ
اپنے بدنما ہاتھوں سے خدا کے خدوخال سینچتا ہے اور رب کی بارگاہ میں اپنے برش اور رنگوں
کے ڈبوں کے حمل گرا دیتا ہے
وہ
وقت تخلیق کرتا ہے اس میں سفید رنگ بھرتا ہی ۔۔ کینوس ابسٹریکٹ ہو جاتا ہے اور چیخیں
مارتا ہے
وہ
اپنی محبوباٶں
کے ننگے خواب آنکھوں میں بھرتا ہے اور آنکھیں پینٹ کر دیتا ہے
وہ
اپنی غلیظ نظموں پر تھوکتا ہے ان سے ساری رات ہمبستری کرتا ہے اور ان کے مخمور جسموں
کے ٹکرے دانتوں سے اٹھا کر کاغذ کے گٹر میں بہا دیتا ہے
اسے
تخلیق کے نام سے نفرت ہے اور تخلیق اسکی ان بیاہی سہاگن
ہے
وہ
جھولتی ہوئی لاشوں کے انبار اکٹھے کرتا ہے افسانوں کو کرداروں سے بھرتا ہے اور ویران
سڑکوں پر کپڑے اتار کر بھاگنے لگتا ہے
وہ سانسوں
کے ریشے کلائےمکس کے ٹوکے سے الگ کرتے کرتے کسی نامکمل ناول کے آخری سین کی نبض تھام
لیتا ہے
اسکی
تصویر لاکھوں کی بکتی ہے ۔۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا ادیب بن جاتا ہے اسکی شاعری یونیورسٹیوں
کے سلیبس کا حصہ بنتی ہے ۔۔۔
عمدہ نظم
ReplyDeleteThanks dear Mughira
ReplyDelete