Skip to main content

Afsana Bhool By Mohd Shahshad

 

افسانہ. بھول

آج نیتسیا گنگا کے کنارے بیٹھ کر اپنے خیالوں میں غوطے لگا رہی تھی جب وہ گھر سے نکلی تھی تو صرف یہی سوچ رہی تھی کہ وہ گنگا میں ڈوب کر اپنی جان دے دیگی وہ مر جائے گی لیکن اب وہ اڈانوں، مادھو اور اس پریوار کے کسی بھی سدسیہ کو اپنی صورت دکھانا گوارہ نہیں کریگی چاہے اسکے ساتھ جو بھی ہو جائے بلکہ اسے گھٹ گھٹ کر ہی کیوں نہ دم توڑنا پڑے پھر بھی اب وہ کسی بھی حال میں اس پریوار کی جانب منہ نہ کرے گی آج وہ صرف گنگا اسنان ہی نہیں بلکہ ہمشہ کیلئے گنگا میں سما جائے گی

اس رات تو اسکے ساتھ عجب واقعہ ہوا تھا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس اڈانو اور مادھو پریوار کے سب کے سب لوگ اس حد تک گر سکتے ہیں اس دن کے قبل اس نے اڈانو پریوار کے بارے میں یہی سوچ رکھا تھا کہ یہ سبھیہ اور سوشیل پریوار ہے اس پریوار میں کسی بات کا کوئی فرق نہیں مانا جاتا ہے اور نہ ہی کسی بات کا برا، نہ ذات دھرم اور نہ ہی اونچ نیچ کا، اس پریوار کے سبھی لوگ ایک دوسرے کو پیار و محبت سے دیکھا کرتے ہیں لیکن اس واقعہ نے اسکی نظریں کھول کر رکھ دی تھیں اس نے پریوار کے ایک ایک فرد کے کارنامے اور انکے مریادے کو بکھیر کر رکھ دیا تھا وہ ایک ایک فرد کو پہچان چکی تھی اب اسے اس بات کا راز بھی ایک ایک کر کے سامنے آچکا تھا کہ مادھو اور سوشیل جیسے کڑیل جوانوں نے آج تک شادی کیوں نہیں کی تھی اور وہ اتنا اتمینان کی زندگی کیسے گزار رہے ہیں

اب تو اسے پریوار کے کسی ایک فرد پر کوئی وشواس ہی باقی نہیں رہ گیا تھا اسے یہاں کا ہر شخص ننگا نظر آرہا تھا اسے اب یقین ہو گیا تھا کہ اس خاندان کے کسی بھی شخص کو اپنی اور اپنے پریوار کی عزت، مریادہ کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کسی بات کا لحاظ ہے کیا بڑا اور کیا چھوٹا، کیا مرد اور کیا عورت سب کے سب ایک ہی پانی اور صابن کے دھولے ہوئے ہیں انکا ضمیر اتنا مر چکا ہے کہ انہیں حرام حلال کی کوئی تمیز ہی باقی نہیں ہے

اس دن، شام کے 7 بج رہے تھے اور پریوار کے سارے لوگ مرد ہو ں یا عورتیں سبھی آنگن میں جمع تھے گھر کے مرد چارپائی پر بیٹھے تھے اور عورتیں پیڑھے پر اپنے اپنے سروں کو ہاتھ سے تھامے بیٹھی تھیں، تایا جی جو اس پریوار کے سب سے بزگ، سمجھدار اور موریش سمجھے جاتے تھے وہ ایک چارپائی پر بالکل تنہا لیٹے پڑے تھے انکے درمیان کسی بات کو لے کر وچار ومرش ہورہا تھا انہیں اس طرح ایک جگہ دیکھ کر نیتسیا کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کسی سمسیا کو لے اتنے گمبھیر ہیں جبکہ نیتسیا کو اسکی کوئی خبر نہیں تھی کہ وہ کس سمسیا کو لے کر اس طرح بیٹھے ہیں یہ دیکھ کر انکے سامنے جانے سے تھوڑی دیر کے لئے وہ ہچک بھی رہی تھی کہ اسے انکے سامنے سے جانا چاہئے یا نہیں پھر بھی وہ اپنے کمرے کی جانب اپنا قدم بڑھانے لگی

اسے دیکھتے ہی تایا جی نے اسے آواز لگا کراپنے جانب بلایا ” او نیتسیا کہاں جارہی ہے ادھر آکر بیٹھ جا“ یہ سن کہ نیتسا نے جواب دیا ” ایک کام سے زرا دیر کے لئے اندر کمرے میں جارہی ہوں بس تھوڑی ہی دیر میں کام ختم کر کے واپس آتی ہوں

اتنی جلدی کس بات کی ہے وہ کام تو بعد میں بھی کرسکتی ہے پہلے تو ادھر آ اور میری بات سن، پھر اپنے کام کا نپٹارہ کر تے رہنا“ وہ تایا جی کی بات ٹال نہ سکی اور پھر وہ انکے درمیان آکر ایک پیڑھے کے سہارے بیٹھ گئی

نیتسیا کے بیٹھتے ہی تایا جی نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ” آج کل تو اتنی اداس اداس کیوں لگتی ہے کیا تجھے کسی بات کی کوئی تکلیف ہے یا تجھے اب اڈانو کا بڑھاپا بوجھ لگنے لگا ہے“ وہ بولے جارہے تھے

میں مانتا ہوں کہ وہ 70 سال کا بوڑھا اور کافی کمزور ہوگیا ہے اسکے سارے بال سفید ہوچکے ہیں اسکے الٹ تو اب بھی جوان ہے تیری کانٹھ کانٹھی دن بدن جوان ہوتی جارہی ہے شاید تیری اکچھا شکتی بھی جوان ہوگی اور وہ تجھے پریشان بھی کرتی ہوگی اس لئے میں کہتا ہوں کہ تو اسکا پچھتاوا مت کر، تو اپنے آپ کو کمزور اور مجبور مت سمجھ، اب تو اڈانو کو چھوڑ اور مادھو کے ساتھ رہنا شروع کردے اور مادھو کو اپنا جیون ساتھی بنا لے اگر تو مادھو کے ساتھ جیون بتانا شروع کر دیگی تو تیری خوشی بھی دوبارہ لوٹ آئیگی اور پھر شاید تیری گود بھی بھر جائے“ تایاجی کی باتیں سن کر وہاں پر بیٹھی عورتوں نے اپنے اپنے منہہ پر اپنا رکھ کر لیا اور شرم کے مارے انکی گردنیں جھک گئیں ہو سکتا ہے تایا جی کی باتوں سے ان عورتوں کو بھی دھکا لگا ہو انکے درمیان اڈانو بھی بیٹھا تھا لیکن اڈانو اس پر کوئی عتراض نہیں کر سکا جیسے اس بات میں اسکی بھی سہمتی شامل ہو یا اپنے بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ کر وہ اب مادھو سے ڈرنے لگا ہو

انکی باتیں سن کر نیتسیا بھونچکا سی رہ گئی اور اسکے روئیں روئیں کھڑی ہو گئیں یہ کیسا دن اسکے سامنے آگیا اور یہ کیسے لوگ ہیں کیا انکے اندر شرم و حیا نام کی کوئی چیز باقی بھی نہیں ہے جب اس بوڑھے کا حال ایسا ہے جن کے پیر قبر میں لٹکے پڑے ہیں تو ان نو جوانوں کا کیا ہوگا جو عیاشی کو اپنا دھرم سمجھتے ہیں کسی عورت کی عزت کو اپنی عزت نہیں سمجھتے ہیں ایک وقت تو اسکا جی چاہا کہ وہ ایک بڑا سا پتھر اٹھا لائے اور اس تایا جی کا سر اس سے کچل ڈالے لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا اور وہ غصہ کو تھام کر اپنے کمرے کے اندر چلی گئی

کچھ دیر کے لئے اسے یہ بھی خیال آیا کہ وہ دوبارہ للوا کے گھر لوٹ جائے لیکن اب وہ کس منہ سے للوا کے پاس جا سکتی ہے وہ تو اس قابل بھی نہ رہ سکی ہے کہ دوبارہ للوا سے وہ معافی مانگ سکے وہ اسکی بیاہتا تھی وہ نیتسیا کو سات پھیروں ساتھ اور مانگ میں سندور ڈال کر بیاہ کر لایا تھا وہ بڑی دھوم دھام سے بارات لے کر اسکے گھر گیا تھا اور اسے دلہن بنا کر ڈولی میں سجا کر اپنے گھر لایا تھا اسکی شادی کی علاقے بھر میں دھوم اور شور تھا کہ ایک یادو کے لڑکے نے ایک تیلی کی بیٹی کو بیاہ کر لایا ہے کتنی اچھی بات ہے اس لڑکے نے تو ذات پات کے فرق کو ہی مٹا دیاہے اگر اس طرح شادی ہونے لگے تو اس سماج میں ایک انقلاب آجائے گا

اور۔۔۔۔۔اور وہ کالج کے زمانے کے دنوں میں کھوتی چلی گئی

کالج کے دنوں کی باتیں ہیں اس وقت للوا پٹنہ کالج میں پالیٹکل سائنس میں بی اے کررہا تھا اور وہ سائکلوجی کی طالب علم تھی ایک دن کی بات ہے کہ وہ کچھ سہیلیوں کے ساتھ کالج کے کینٹین میں چائے پینے کیلئے گئی ہوئی تھی کاؤنٹر سے چائے لیتے ہوئے کچھ لڑکوں نے اسے دھکا دے دیا جس کے وجہ کر چائے کا کپ اسکے کپڑے پر آگرا اور اسکا کپڑا خراب ہوگیا جب ان لوگوں نے انہیں دیکھا تو الٹے وہ اس پر اپنا دھونس جماکر انہیں چھیڑنے لگے اسی درمیان للوا کہیں سے آگیا کچھ دیر وہ انہیں کھڑا دیکھتا رہا جب انکی بدتمیزیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور وہ ان سے بہت زیادہ پریشان ہو کر ادھر ادھر مدد کیلئے تکنے لگیں تو وہ ان لوگوں کی حالت دیکھ ان کے بیچ آکر ٹپک پڑا اور ان لڑکوں سے بولا ایک توتم لوگ جان بوجھ کر غلطیاں کرتے ہو اور الٹا دھونس بھی تم ہی لوگ جما رہے ہو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لڑکیاں کمزور ہیں ان سے جو چاہو گے کرلو گے چلو ہٹو یہاں سے، دور جاؤ لیکن وہ للوا سے بھی اسی طرح اکڑ کر بات کرنے لگے اسکی اکڑن دیکھتے ہی للوا نے انکے چہرہ پر زور کا دو تین تماچہ جڑ دیا جس کے وجہ کر انکا چہرہ لال ہوگیا آخر کار انہیں اپنی رسوائی کے بعد پیچھے ہٹنا پڑا، اور انہوں نے چپکے سے نکلنا ہی مناسب سمجھا اس واقعہ کے بعد اسکے دل میں للوا کی عزت بڑھنے لگی اور وہ اسکے قریب ہونے لگی اور ان دونوں کی قربت, ایک جاں دو قالب کے روپ دھارن کرتے ہوئے ایک پریوار میں تبدیل ہو گئی

للوا سیدھا بدھو اور ایک غریب پریوار کا لڑکا تھا وہ شرٹ پائجامہ اور ہوائی چپل میں ہی کالج آیا کرتا تھا جس کے وجہ کر اسکے کلاس کے لڑکے اکثر اس کا مذاق بھی اڑایا کرتے تھے لیکن وہ اسی مذاق کے انداز سے جواب دیکر سب کو چپ کرا دیا کرتا تھا اسکی کچھ عادتیں بھی بہت عجب سی تھیں جس کے وجہ کر تقریبا پورا کالج اسے جاہنے لگا تھا مثلا سب کے ساتھ دوستی کرنا اور انکی مدد کرنا، امیر غریب میں کوئی تمیز نہ کرنا اور نہ ہی کوئی ذات پات کا بھید بھاؤ کرنا، استادوں اور بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے پیار کرنا،

نیتسیا نے کئی سال للوا کے ساتھ گزارے تھے للوا کے ساتھ گزرے دنوں کی یادیں ایک ایک کر کے وہ یاد کرنے لگی کتنے اچھے وہ دن تھے ان دونوں کے بیچ کبھی کوئی نہ جھک جھک ہوئی نہ من مٹھاؤ للوا اکثر اس سے کہا کرتا تھا ابھی کچھ دنوں کی باتیں ہیں کچھ دن اور ہمیں اس گاؤں میں گزارنا ہوگا جب میری نوکری ہوجائے گی تو ہم سب مل کر شہر میں ایک ساتھ رہیں گے اور سب مل کر مزہ کریں گے

لیکن بار بار تھوڑے ہی کوئی غلطی معاف کرتا ہے ایک دو بار انجانے میں کوئی غلطی ہوجائے تو چل جاتی ہے لیکن وہ تو کئی بار اس طرح کی غلطیاں کرتی رہی تھی اس نے اتنا ہی پر بس نہیں کیا تھا بلکہ اس نے تو للوا کو چھوڑ کر اس کے دشمن کے گھروں کو آباد کر دیا تھا جس کے وجہ کر گاؤں، سماج اور پورے سنسار میں للوا کی بہت بدنامی ہوئی تھی اتنا پر بس ہو جاتا تو بھی چل سکتا تھا لیکن نیتسیا نے تو حد کر دی تھی للوا کے دشمنوں نے اسے جو جو کام کرنے کہا وہ ایک غلام کی طرح ہر وہ کام کو کرتی رہی تھی بلکہ وہ انکی انگلیوں پر ناچ رہی تھی جس کے وجہ کر اسے کئی بار جیل کی بھی ہوا کھانی پڑی تھی

اڈانو اکثر للوا کے گھر آیا کرتا تھا جہاں نیتسیا کی اس سے ملاقات ہوئی تھی اڈانو گورا چٹا خوب صورت ایک ادھ عمر کا آدمی تھا جبکہ للوا ایک عام گیہواں رنگ کا نوجوان تھا جو دل کا سادہ تھا اور سادہ پسند بھی تھا اڈانو میں ایک خوبی ضرور تھی جو عام طور پر لوگوں کو بڑی تیزی سے لبھا جاتی تھی وہ بولنے میں تیز ترار آدمی تھا اڈانو کی چٹپٹی زبان ا ور اسکی تیز ترار باتوں نے نیتسیا کو کافی متاثر کیا تھا اور اس طرح انکی قربت کافی بڑھ گئی تھی اس نے للوا کو چھوڑ کر اور اسکے گھر سے بھاگ کر اڈانو کے سا تھ آگئی تھی وہ یہاں بیاہ کر نہیں لائی گئی تھی اور وہ اڈانو کے ساتھ خوش خرم زندگی گزار رہی تھی کسی کو اس پر کوئی آپتی نہیں تھی کہ وہ کیوں اڈانو کے ساتھ اسکے گھر میں رہ رہی ہے نہ اسے اور نہ ہی اڈانو کے پریوار کو، زرا سا بھی نہیں۔

نیتسیا نے برسوں اڈانو کے ساتھ گزاری تھی وہ اڈانو کی بیاہتا نہیں تھی لیکن اس سے کسی طرح کم بھی نہیں تھی جو اسے اکثر کھٹکتا رہتا تھا ”تو جو کچھ بھی ہے سب ٹھیک ہے لیکن تو اڈانو کی بیاہتا نہیں ہے اس ناتے تمہارا اڈانوں اور اس پریوار سے کوئی رشتہ نہیں ہے اس پریوار کے لوگ جب چاہیں گے تمہیں دودھ کی مکھی کی طرح نکال سکتے ہیں“ اسکے ساتھ گزرے دنوں کی یادیں اسے یاد آنے لگتیں تو وہ جھوم اٹھتی کتنے اچھے دن تھے وہ جب پورا گاؤں علاقہ کے لوگ اڈانو کا گن گان کرتی تھی ہزاروں لوگ اڈانو کے آگے پیچھے ہوتے تھے اتنا ہی نہیں وہ مادھو کا بچہ بھی جو آج کل گھر کا شیر بنا پھرتا ہے وہ بھی میرے اور اڈانو کے پیچھے دم چھلا بنا پھرتا تھا اور اب جب اڈانو لاغر ہوگیا اور انکے برے دن آگئے توایک ایک کرکے انکے ساتھ چلنے والے وہی لوگ ان سے کنارہ کش ہونے لگے اور اب اڈانو بالکل تنہا ہوگیا ہے اسکے پریوار والوں نے سب سے پہلے اس سے اسکی کرسی چھینا، پھر گھر کا مالکانہ حق چھینا اور اسے ایک کونے میں ایک کوڑے دان کے طور پر الگ تھلگ کر دیا اور اب مجھے بھی ان سے چھیننا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو مادھو کے ساتھ آجا اور اسی کے ساتھ رہ لے اور اپنی زندگی کے باقی دن اسکے ساتھ گزارلے اب تو اڈانو اس قابل بھی نہیں رہ سکا کہ تو اڈنو کے ساتھ رہ سکے تو, تو پھر بھی بہت اچھی ہے خوب صورت، صحت مندو جوان، چالاک اور تیز ترار ہے اب تو اس بڈھے کے ساتھ کیسے رہ سکے گی نہ اب اسکے ساتھ وہ شاہی زندگی ہے نہ وہ لو لشکر اور وہ ہجوم، اگر تو مادھو کے ساتھ آجاتی ہے تو پھر سے شاہی جیون بتانے لگے گی اس لئے تیرے لئے یہ ضروری ہے کہ تو مادھو کے ساتھ آجا۔
اور پھرنیتسیا سوچ رہی تھی کہ یہ کس قماس کا پریوار ہے اور یہ لوگ اسے ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ جب جس کا دل چاہے وہ اسکا بستر استعمال کر سکتا ہے کیا اسکے جینے کا مقصد یہی ہے

افسانہ نگار. محمد شمشاد


 

Comments

Popular posts from this blog

Ab main Ne Kiya Kiya by Fozia Qureshi | Raaz Ki Batain By Fozia Qureshi | Urdu Afsane By Fozia Qureshi

تحریر فوزیہ_قریشی "اب میں نے کیا کِیا" میں کچھ نہ بھی کروں تب بھی اُن کو لگتا ہے کہ ضرور میں نہ ہی کچھ کیا ہے یوں تو ہماری بیگم کی بینائی بالکل ٹھیک ہے لیکن اُن کو چشمہ پہننے کا بہت ہی شوق ہے۔ یہ کوئی عام چشمہ نہیں ہے بلکہ بہت ہی خاص چشمہ ہے جس کو پہن کر سب دِکھائی دیتا ہے جو کسی کو دِکھائی نہیں دیتا اور وہ کچھ بھی جو ہم نے کبھی کِیا نہ ہو۔ مزے کی بات یہ کہ وہ کبھی بھی، کہیں بھی اچانک سے یہ چشمہ پہن لیتی ہیں۔ کبھی راہ چلتے تو کبھی رات کے اگلے یا پچھلے پہر۔ اس چشمے نے ہمارا اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا، سونا، جینا سب حلال کر دیا ہے۔ جی جی حلال کیونکہ کچھ بھی حرام دیکھنے اور کرنے کی نہ ہمت رہی اور نہ اب وہ پہلی سی جرات۔ شادی کو چھ برس گزر چکے ہیں لیکن ان کو ہم پر رَتی بھر بھی بھروسہ نہیں ہے بیگم کے خوف کی وجہ سے ہم ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔ نہ دائیں دیکھتے ہیں نہ بائیں بس سیدھے کھمبے سے ٹکرا جاتے ہیں۔۔ماتھے پر پڑے گومڑ کو دیکھ کر بھی اِن کو ترس نہیں آتا بلکہ یہی لگتا ہے ضرور ہم کسی کو دیکھ رہے ہونگے تبھی کھمبے سے ٹکرائے۔ یقین جانئے ہم نے ولیمے والے دن

Hum Karam Ke Hindu Aur Dharam Ke Musalman By Iftikhar Iffi Sahab

  کرم کے ھندو اور دھرم کے مُسلمان ھیں بابا   دین   مُحمد   کے   اس   جملے   نے   مُجھے   چونکا   دیا   ،، میں   نے   بابا   دین   مُحمد   کی   سوچ   کو   یکسر   مُسترد   کر   دیا   ،،   بابا   بولا   بچے   کرم   کا   مطلب   عمل   ھے   ھندی   زبان   میں   ،،   کرم   ،،   عمل   کو   کہتے   ھیں   ،،   میں   نے   کہا   بابا   جی   نہ   تو   ھم   اپنے عمل   سے   ھندو   ھیں   اور   نا   اُن   کے   پیرو   کار   ،،   بابا   مُسکُرایا   اور   بولا   ،   بھائی   اگر   میں   ثابت   کر   دوں   کہ   جو   میں   نے   کہا   ویسا   ھی   ھے   تو   معافی   مانگو   گے   ؟؟   میں   نے   کہا   ھاں   مانگونگا   ،،   پر   آپ   آج   مُجھ   سے   نہیں   جیت   سکتے   ،،   بابا   بولا   واک   چھوڑو   آؤ   گھاس   پر   بیٹھ   کر   بات   کرتے   ھیں   ،،   میں   اور   بابا   گُلشن   پارک   کے   ایک   باغ   میں   بیٹھ   گئے   ،   میں   بیقرار   ےتھا   کہ   بابا   جی   اپنی   بات   ثابت   کریں   ، بابا   میرے   چہرے   کے   تاثُر   کو   پہچان   گیا   تھا   بولا   ،   یہ   بتاؤ   کے   نکاح   تو   الله   کا   حکم   ا

Final Presidential Debate | Donald Trump vs Joe Biden | Views & Reviews By Jackie Bruce Khan

President Donald Trump and Democratic Presidential candidate Joe Biden went head to head in the last Debate of the 2020 political decision for a strained yet strategy centered night. President Donald Trump and previous Vice President Joe Biden got down to business in their second and last discussion of the 2020 political race cycle on Oct. 22.  Trump and his Democratic challenger shared the stage at Belmont University in Nashville, Tennessee, before mediator Kristen Welker of NBC News. Thursday's discussion was intended to be the third and last of the political decision season, however the discussion booked for Oct. 15 was dropped, after the president's COVID-19 analysis provoked the Committee on Presidential Debates to make the discussion virtual, and Trump would not take an interest. Biden rather booked a municipal center that night, and the president later planned his own municipal center for a similar time.  The discussion came under about fourteen days in front of Election