کل میرے بچے نے ایک سوال کیا ۔
کیا میوزک حرام ہے؟
میں چپ ہوگئی بلکہ خاموش سی ہوگئی ۔
کیا کہتی ؟
اگر کہتی حرام ہے تو وہ سوچتا کہ اس کی ماں بھی اپنی زبان کے اکثر گیت سنتی ہے بس روزے میں احتیاط کرتی ہے۔ اپنی اِس منافقت پر مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا
کہ کیا کہوں؟
حلال بھی کہہ نہیں سکتی تھی کیونکہ کچھ مسلک میں اسے مکمل حرام ہی سمجھا گیا ہے۔ خیر پھر یہ کہہ کر ٹالا کہ بیٹا کوشش کرو مت سنو۔
لیکن!! اگر ممکن ہے تو ایسے گانے مت سنو یا دیکھو جس میں ولگیریٹی ہے۔
میں یہ کہہ کر بھی میں مطمن نہیں تھی کیونکہ گیتوں کی زیادہ تر شاعری بھی پیار ، محبت ، دکھ ، غم اور خوشی سے جڑی ہے۔
اکثر اس طرح کے سوالات سے مجھے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ میرے اپنے ارد گرد موجود اکثر ایشین مسلم بچے اسی حرام و حلال کے چکر میں ذہنی مریض بن جاتے ہیں کیونکہ والدین کے دوغلے روئے اور گھر، باہر کے ماحول میں زمین و آسمان کا فرق۔ اُن کی شخصیت کو خاص کر ٹین ایج میں بہت متاثر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہے جس وجہ سے اکثر یہاں پرورش پانے والے بچے مسلمان بننے اور بنانے کے چکر میں اور خاص کر انہیں گھر والوں کی طرف سے بے جا پابندیاں انہیں باغی بنا دیتی ہیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ مسلمان بننے کے چکر میں اچھے انسان بھی نہیں بن پاتے۔
سوچئے
اچھے انسان ہی نہ بن پائیں گے تو
اچھے مسلمان کیسے بنیں گے؟
جب دیس اور بدیس میں موجود اپنوں کی روئیوں میں دوغلا پن ہوگا تو بچوں کی شخصیت بھی متاثر ہوگی۔
اکثر ایسا ہوتا ہے جب ہم اُن پر زبردستی اپنے خیالات تھوپتے ہیں جبکہ خود منافقت کا چلن اپنائے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں تو بات مذید بگڑتی ہے۔
یہاں بہت سارے مشرقی والدین اسی چکر میں اپنے بچوں کو خود سے بھی دُور کر دیتے ہیں اور یہ پہلی غلطی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک جنریشن گیپ پیدا ھوجاتا ھے جس سے مسائل حل ھونے کے بجائے مذید بگڑ جاتے ہیں۔
فوزیہ قریشی
Comments
Post a Comment