آزادی تو آج بھی اسی خواب کی مانند ہے جو کبھی مفکر ملت علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور قائد اعظم کا اس خواب کو تعبیر کا روپ دینے میں کیا کردار تھا یہ مجھے آج تک سمجھ نہ آسکا. مجھے یاد ہے ایام بچپن میں 14 اگست کے دن ٹی وی پر جشن آزادی کے شان وشوکت سے مزین پروگرام میں آزادی کی اہمیت پر سارا دن بھری بھرکم تقاریر اور جوشیلے و بھڑکیلے ملی نغمے سن سن کر آزادی ایک نعمت اور 14 اگست کا دن ایک جشن کی مانند محسوس ہوا کرتا تھا. جیسے جیسے شعور کی بلندیوں پر قدم رکھتا گیا اور اپنے اردگرد کے حالات و سانحات کو آزادی کے پلڑوں میں تولنے لگا تو آزادی کی اہمیت وفوقیت کے یہ تمام بھاشن میری نظر میں اپنی اہمیت کھونے لگے اور ملی نغموں کے جوشیلے الفاظ اپنی موت آپ مرنے لگے
14/ اگست کا جوش و جنوں ٹھنڈا پڑتا محسوس ہونے لگا- آج جب کہ آزادی کا حقیقی مہفوم میری نظر سے پوشیدہ نہیں رہا تو اس نام نہاد آزادی کے جشن سے، جسے ہم ہر سال ماننا اپنا فرض سمجتے ہیں مجھے گھن آنے لگی ہے. ایک علیحدہ وطن، قومی زبان، قومی لباس اور اپنی شانخت کے خوبصورت الفاظ کی قلعی اب میری نظر سے اتر چکی ہے اور اصل حقائق مجھے منہ چڑاتے محسوس ہونے لگے ہیں. الگ وطن مگر کس کا
پنجابیوں کا ؟
سندھیوں کا ؟
بلوچوں کا ؟
یاں پھر پختونوں کا ؟
کون سا قومی لباس؟
کون سی اپنی شانخت؟
کونسی اپنی تہذیب وثقافت؟
ہمارے لباس، تہذیب وثقافت سے لے کر رسموں تک ہم آج بھی ہندوستان ہی کے مرہون منت ہیں تو مذہب کے ماملے میں اہلسنت سعودی عرب اور اہل تشیع ایران کے ہمیشہ سے زیراثر رہے ہیں
اور تو اور قومی زبان اردو ہوتے ہوۓ بھی قومی ترانے میں فارسی کا احسان ہم نے لیا.
ہمارا اپنا کیا ؟
اپنی پہچان تو آج بھی کچھ نہیں. اِدھر اُدھر سے پکڑ کر اپنا لیبل لگا دیا بس. اب جیسی جعلی شناخت ہے ویسی ہی ہماری آزادی ہے. حقیقت تو یہ ہے کہ وہ 72 سالہ آزادی جو 14 اگست 1947کو بے جا خون کی ندیاں بہا کر حاصل کی گئی تھی، وہ تو کبھی ہم تک پہنچی ہی نہیں.
آج دنیا کے نقشے پرصرف دو ہی ممالک ایسے ہیں جنہیں مذہب کو بنیاد بنا کر حاصل کیا گیا تھا. اور دونوں ہی نے آج دنیا بھر کا سکون برباد کر رکھا ہے تمام عالم کی نیندیں آج انہی دو مذہبی بلاؤں نے اڑا رکھی ہیں.
Comments
Post a Comment