Skip to main content

Maan (Mother) Main Aya Tha Mother's Day Special By Gulzar | Khuwab Naak Afsane

ماں میں آیا تھا


تری پیروں کی مٹی کو، میں آنکھوں سے لگانے کو
وصل کے گیت گانے کو، ہجر کے گیت گانے کو
ترے جہلم کے پانی میں نہانے کو
ترے میلوں کے ٹھیلوں میں
جھمیلوں میں، میں خوش ہونے اور ہنسنے کو اور رونے کو
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
نیلم کی ندی میں خود کو دھونے کو میں آیا تھا
شکاری تاک میں تھے پر
ہجر کے شجر پر بیٹھے پرندے کی طرح میں لوٹ آیا تھا
وطن کے آسمانوں کو، ندی نالوں، درختوں اور ڈالوں کو
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے، جلاوطنی کی لمبی رات ہے
صدیوں کو جاتی ہے، وہاں سے ٹرین آتی ہے
دکھوں کے دھندلکوں میں شام میں لپٹی ہوئی
یادوں کی ریکھاؤں
ریلوے کی پٹڑیوں پہ جھلملاتی ہیں
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
میرے گاؤں کے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں
رکھی شیشم کی ٹیبل پر کوئی بھولا ہوا ناول ملا تھا
زندگی کا جو کوئی بھولا ہوا بھٹکا مسافر بھول گیا تھا
میں وہ ناول بھول آیا
پر میں ویٹنگ روم اپنے ساتھ لایا تھا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ویٹنگ روم میں بھولا ہوا ناول وہ میں ہی تھا
میں چھوٹا تھا، میں پونے سات برسوں کا اک بچہ تھا
یہیں دینے کی گلیوں میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
میں بوڑھے پن کی سرحد کب کی پار کر کے آیا ہوں
میں کئی گیت لایا ہوں تری خاطر
میں ویٹنگ روم سے نکلا نہیں اب تک
گاؤں کا ویران اسٹیشن میرے خوابوں میں جو آباد ہے
اب تک حقیقت میں وہاں کوئی ٹرین ایسی بھی نہیں رکتی
جو مجھ کو تیرے پیروں میں لے آئے
تیرے پیروں کی جنت میں جگہ دے دے
دفن کر دے مجھے اس آم کی گٹھلی کی مانند
جو میرے گھر کے آنگن میں کھلا تھا جس پر بیٹھی
شام کو وہ شور چڑیوں کا مری ہر شام
میں اب بھی آتا ہے بلاتا ہے
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ، یہ سرحد میں بٹی دنیا
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو، جہلم کے دریا کو
نیلم کے نیلے پانیوں کو، ندی جتنے ہمارے آنسوؤں کو
مندروں میں گھنٹیوں جیسی ہواؤں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا وہ آری ہے
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ دیتی ہے
پاٹ دیتی ہے مری ماں کو
میرے دادا کے دینے کو
خوں پسینے کو
سمادھی گردواروں، مندروں اور مسجدوں، گرجوں کو
مزاروں اور مڑھیوں خانقاہوں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا
شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ کر
کچھ بھی بنا دے
کتابوں سے بھری کوئی شیلف
یا چوباروں میں کھلتی نرگسی آنکھوں کی کھڑکی
کوئی بھگوان، کوئی بدھا
کسی سوہنے سلونے یار سانول ڈھول کی مورت
یا مصنوعی اعضا سپاہی کے
یا کسی پھانسی کے تختے کو بنائے
یہ سرحد میں بٹی دنیا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ماں میں آیا تھا
جنم بھومی میری بھومی
جنم تو نے دیا مجھ کو
تیرے پیروں کے نیچے
وہ جو جنت ہے
وہ جو ندی بہتی ہے کہتی ہے مجھ سے
تھک گیا ہے تو، اب تو سو جا، پر سو نہیں سکتا
مری مٹی مجھے کہتی ہے تو آ مٹی میں مٹی بن جا
چاک پر چڑھ جا کمہارن کے
پر ایسا ہو نہیں سکتا مگر میں سو نہیں سکتا
کیوں تیرا ہو نہیں سکتا؟
یہ سرحد میں بٹی دنیا
ماں
میں آیا تھا۔


گلزارؔ کی اپنی جنم بھومی دینہ جہلم سے واپسی پر ایک نظم



Comments

Popular posts from this blog

Ab main Ne Kiya Kiya by Fozia Qureshi | Raaz Ki Batain By Fozia Qureshi | Urdu Afsane By Fozia Qureshi

تحریر فوزیہ_قریشی "اب میں نے کیا کِیا" میں کچھ نہ بھی کروں تب بھی اُن کو لگتا ہے کہ ضرور میں نہ ہی کچھ کیا ہے یوں تو ہماری بیگم کی بینائی بالکل ٹھیک ہے لیکن اُن کو چشمہ پہننے کا بہت ہی شوق ہے۔ یہ کوئی عام چشمہ نہیں ہے بلکہ بہت ہی خاص چشمہ ہے جس کو پہن کر سب دِکھائی دیتا ہے جو کسی کو دِکھائی نہیں دیتا اور وہ کچھ بھی جو ہم نے کبھی کِیا نہ ہو۔ مزے کی بات یہ کہ وہ کبھی بھی، کہیں بھی اچانک سے یہ چشمہ پہن لیتی ہیں۔ کبھی راہ چلتے تو کبھی رات کے اگلے یا پچھلے پہر۔ اس چشمے نے ہمارا اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا، سونا، جینا سب حلال کر دیا ہے۔ جی جی حلال کیونکہ کچھ بھی حرام دیکھنے اور کرنے کی نہ ہمت رہی اور نہ اب وہ پہلی سی جرات۔ شادی کو چھ برس گزر چکے ہیں لیکن ان کو ہم پر رَتی بھر بھی بھروسہ نہیں ہے بیگم کے خوف کی وجہ سے ہم ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔ نہ دائیں دیکھتے ہیں نہ بائیں بس سیدھے کھمبے سے ٹکرا جاتے ہیں۔۔ماتھے پر پڑے گومڑ کو دیکھ کر بھی اِن کو ترس نہیں آتا بلکہ یہی لگتا ہے ضرور ہم کسی کو دیکھ رہے ہونگے تبھی کھمبے سے ٹکرائے۔ یقین جانئے ہم نے ولیمے والے دن

Hum Karam Ke Hindu Aur Dharam Ke Musalman By Iftikhar Iffi Sahab

  کرم کے ھندو اور دھرم کے مُسلمان ھیں بابا   دین   مُحمد   کے   اس   جملے   نے   مُجھے   چونکا   دیا   ،، میں   نے   بابا   دین   مُحمد   کی   سوچ   کو   یکسر   مُسترد   کر   دیا   ،،   بابا   بولا   بچے   کرم   کا   مطلب   عمل   ھے   ھندی   زبان   میں   ،،   کرم   ،،   عمل   کو   کہتے   ھیں   ،،   میں   نے   کہا   بابا   جی   نہ   تو   ھم   اپنے عمل   سے   ھندو   ھیں   اور   نا   اُن   کے   پیرو   کار   ،،   بابا   مُسکُرایا   اور   بولا   ،   بھائی   اگر   میں   ثابت   کر   دوں   کہ   جو   میں   نے   کہا   ویسا   ھی   ھے   تو   معافی   مانگو   گے   ؟؟   میں   نے   کہا   ھاں   مانگونگا   ،،   پر   آپ   آج   مُجھ   سے   نہیں   جیت   سکتے   ،،   بابا   بولا   واک   چھوڑو   آؤ   گھاس   پر   بیٹھ   کر   بات   کرتے   ھیں   ،،   میں   اور   بابا   گُلشن   پارک   کے   ایک   باغ   میں   بیٹھ   گئے   ،   میں   بیقرار   ےتھا   کہ   بابا   جی   اپنی   بات   ثابت   کریں   ، بابا   میرے   چہرے   کے   تاثُر   کو   پہچان   گیا   تھا   بولا   ،   یہ   بتاؤ   کے   نکاح   تو   الله   کا   حکم   ا

Final Presidential Debate | Donald Trump vs Joe Biden | Views & Reviews By Jackie Bruce Khan

President Donald Trump and Democratic Presidential candidate Joe Biden went head to head in the last Debate of the 2020 political decision for a strained yet strategy centered night. President Donald Trump and previous Vice President Joe Biden got down to business in their second and last discussion of the 2020 political race cycle on Oct. 22.  Trump and his Democratic challenger shared the stage at Belmont University in Nashville, Tennessee, before mediator Kristen Welker of NBC News. Thursday's discussion was intended to be the third and last of the political decision season, however the discussion booked for Oct. 15 was dropped, after the president's COVID-19 analysis provoked the Committee on Presidential Debates to make the discussion virtual, and Trump would not take an interest. Biden rather booked a municipal center that night, and the president later planned his own municipal center for a similar time.  The discussion came under about fourteen days in front of Election