ایک فقیر روزانہ۔۔۔کچھ گاتے ہُوئے ۔۔۔ اس کی گلی میں سے گزرتا
تھا۔۔۔۔۔اور وہ روز ہی اس فقیر کی آواز سنتا ،۔۔۔۔درویشوں اور اللہ والوں سے عقیدت
۔۔۔۔۔۔اسے بچپن سے ہی تھی۔۔۔ ایک روز وہ اس فقیر کے پیچھے پیچھے چل دیا۔۔۔۔۔ایک
جگہ پہ۔۔۔فقیر رک گیا۔۔۔۔۔۔کچھ باتوں کے بعد فقیر نے اس کو نصیحت کی کہ اپنے تن
اور من کو پاک رکھ کر محنت کرنا۔۔۔۔۔۔قدرت تمہیں بہت نوازے گی۔۔۔۔۔پِھر۔۔۔ قسمت
ایک دن ایسی محفل میں لے گئی جہاں وقت کے معروف گلوکار کے ایل سہگل گانا گانے والے
تھے۔۔۔۔۔لیکن بجلی نہ ہونے کے باعث سہگل نے اس لئے۔۔۔گانے سے انکار کر دیا۔۔۔۔کہ
سہگل بلند آواز میں نہیں گا سکتے تھے۔۔۔۔ہجوم کی ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لئے بڑے
بھائی نےجیسے تیسے "اس" کو سٹیج تک پہنچا دیا۔۔۔۔اس۔۔۔۔نے گانا شروع کیا
تو بھری محفل میں خاموشی چھا گئی۔۔۔ لوگ اس کی آواز کے سحر میں گم ہو گئے۔۔۔۔۔مشہور
موسیقار شیام سندر بھی سامعین میں موجود تھے۔۔۔۔۔انہوں نے اسے بمبئی آ جانے کی
دعوت دی۔۔۔۔۔یہ نوجوان بمبئی بھی پہنچ گیا۔۔۔۔بمبئی سٹوڈیوز کے نامور موسیقار
نوشاد علی ان دنوں گلوکار طلعت محمود سے اس لئے ناراض ہو گئے تھے کہ نوشاد نے طلعت
کو ایک دفعہ سیگریٹ پیتے ہُوئے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔نوشاد علی نے اس نو وارد کو سنا
اور گرویدہ ہو گئے۔۔۔۔۔پِھر یہ نوجوان گائیکی کی دنیا کا بےتاج بادشاہ
کہلایا۔۔۔۔جس کے فن کا اعتراف منا ڈے جیسے بہت سے بڑے گلوکاروں نے برملا
کیا۔۔۔۔۔مہندر کپور کہتے ہیں کہ اس نوجوان نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔۔۔۔۔موسیقارِ
اعظم نوشاد علی کہتے ہیں کہ محمد رفیع نے کبھی اپنی موٹر کار میں کسی عورت کے ساتھ
سفر نہیں کیا۔۔۔۔اس کے بیٹے کہتے ہیں کہ ابا جی نہ جانے۔۔۔۔ریاض کب کرتے تھے
کیونکہ وہ اپنا فارِغ وقت بچوں میں۔۔۔ایک بچے کی طرح ہی گزارتے۔۔۔گھر والے بتاتے
ہیں کہ تنہائی میں ہم ان کو آنکھیں بند کئے ، ٹانگ پہ ٹانگ رکھے ، لبِ خاموش کے
ساتھ اپنا دایاں پاؤں آہستہ آہستہ ہلاتے ہوئے دیکھتے۔۔۔تو حیران ہو
جاتے۔۔۔۔انسانیت کے اس پیکر نے نئے آنے والے بہت سے موسیقاروں کے روزگار کے لئے
بلامعاوضہ بھی گانے گا دئیے۔۔۔۔کئی شعراء کے اشعار "اس" کی آواز میں ادا
ہُوئے تو امر ہو گئے۔۔۔۔۔بڑے بڑے شاعر اپنی شاعری کے لئے "اس" کی آواز
کی خواہش کرنے لگے۔۔۔لفظوں کو ان کی ہیئت کے مطابق ادا کرنا اس گلوگار کا خاص وصف
تھا اس کی آواز در حقیقت آسمانی آواز تھی ۔۔۔۔ کوئی غمگین گانا گاتا تو سننے والوں
کی آنکھیں بھی بھیگ جاتیں۔۔۔۔۔خوشی کے اشعار گاتا تو لوگوں کے دل مسرت سے لبریز ہو
جاتے۔۔۔۔۔جو اشعار۔۔۔۔۔۔عام گلوکار اچھل اچھل کر مشکل کے ساتھ گا پاتے وہ آسانی سے
گا دیتا۔۔۔۔اس کی آواز ۔۔۔۔گانے کے دوران۔۔۔۔۔بلند ترین سطح پر جا کر ۔۔۔۔۔۔۔بھی
کبھی نہیں تھرتھرائی۔ ۔۔۔۔۔گانے کے دوران۔۔۔۔الفاظ کو اس طرح ادا کیا جائے کہ۔۔۔ان
کا تاثر قائم رہے۔۔۔۔یہ منفرد خوبی جناب محمد رفیع کو قدرت نے خصوصیت کے ساتھ عطاء
فرمائی تھی۔۔۔۔بہت سے شاعروں کے کلام کو۔۔۔۔محمد رفیع کی آواز نے امر کر
دیا۔۔۔۔۔فلم"نیل کمل" میں بیٹی کی شادی کا منظر تھا۔۔۔۔اس کا گایا ہُوا
"رخصتی" کا گانا۔۔۔
''بابل کی دعائیں لیتی جا"۔۔۔۔۔
آج بھی سننے والوں
کو رلا دیتا ہے۔۔۔۔
وہ ایک درویش صفت
عظیم انسان جو آسمانی شفقات سے لبریز تھا وہ واقعی آفاقی آواز کا مالک
تھا۔۔۔۔۔محمد رفیع۔۔۔۔۔۔ سے خائف ایک طبقہ۔۔۔۔اس کے خلاف ہمیشہ سازشوں میں مصروف
رہا۔۔۔۔لیکن۔۔۔ محمد رفیع۔۔۔۔ اپنے"دشمنوں" سے بھی پیار سے پیش آتا
رہا۔۔
نعت پیش کرتے
ہُوئے محمد رفیع کا لہجہ عقیدت سے بھر جاتا۔۔۔۔وہ یقیناً ۔۔۔۔اشعار کو ان کے تخیّل
کے مطابق گانے کے فن سے خوب واقف تھے۔۔۔۔ایک تواریخی واقعہ۔۔۔۔یقیناً آپ کو حیران
کر دے گا۔۔۔۔۔جس کی تصدیق معروف صداکار جناب عابد علی بیگ بھی فرماتے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناب محمد رفیع کو ایک تقریب میں اپنے خداداد فن گائیکی کا
مظاہرہ کرنے کے لئے بلایا گیا۔۔۔اس تقریب میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی بھی
مہمان خصوصی کے طور پہ شریک تھیں۔۔۔۔۔محترمہ کو اس عظیم گلوکار کی گائیکی اتنی
پسند آئی کہ تقریب کے اختتام پر سے انہوں نے محمد رفیع سے خصوصی طور پہ کہا۔۔۔۔۔کہ
آپ ہمارے مُلک کے مہان گائیک ہیں۔۔۔۔آپ فرمائیے کہ ہماری حکومت آپ کے لئے کیا کر
سکتی ہے۔۔۔۔۔۔اس درویش مزاج انسان نے جواب بھی منفرد دیا جو ان کی اپنے پیغمبر سے
عقیدت کا مظہر تھا۔۔۔۔۔کہنے لگے کہ ۔۔۔۔ میرا نام ہر جگہ ۔۔۔
MOHD RAFI......
لکھا جاتا ہے۔۔۔۔آپ
کچھ اَیسا کر دیجئے کہ میرا پورا نام۔۔۔۔ MOHAMMED RAFI
لکھا جایا
کرے۔۔۔۔۔۔۔۔جناب محمد رفیع کی اس بات کو فوری مان لیا گیا اور۔۔۔۔۔آج تک یہی نام
بولا اور لکھا جاتا ہے۔۔۔۔۔آج اس عظیم
گلوکار محمد رفیع کی برسی ہے۔اللہ مزید رحمتوں سے نواز دے۔
Comments
Post a Comment