فوزیہ قریشی

ماں وہ لفظ ہے جس کے آگے سارے لفظ بے معنی ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ صرف ایک لفظ نہیں ہے بلکہ ایک احساس ہے محبت کا ، قربانی کا، جذبوں کا، امید کا،، ساتھ کا ، چاہت کا ، راحت کا ، ہمت کا ، طاقت اور پیار کا۔ ہم اُس کی ایک رات کا بدل نہیں دے سکتے ۔ میری ماں اُس زمانے کی ماؤں میں سے ایک ماں تھی جو گھر کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی۔ سارے مصالحے خود اپنے ہاتھوں سے پیستی تھی۔ گندم ، چاول کے سیزن میں اُس کی چھٹائی و صفائی کرتی تھی۔ گھر میں ہی صابن بناتی تھی اور مختلف قسم کی چٹنیاں اور اچار بناتی تھی۔ جن میں آم ، لیموں ، سبز مرچوں ، گاجروں ، لسوڑوں، چنے گوشت ،آملے ، کریلےکے اچار شامل تھے
آہ!!! وہ ذائقے دار اچار میرے بچپن کا اچار جسے وہ دھوپ لگاتی پھر اس میں سرسوں کا خالص تیل گرم کرکے ڈالتی ، پھر مٹی کے مرتبان میں ڈال کر ململ کے کپڑے سے اسے ایک مخصوص انداز میں باندھتی تھی۔ پھر اسی مرتبان کو دھوپ لگوائی جاتی ۔ سوکھی لکڑی والے چمچ سے، جسے ہم ڈوئی کہتے تھے اُس کی نوک سے اوپر نیچے کرتی ۔ اچار کے پکنے تک اسے مناسب دھوپ اور چھاؤں لگوائی جاتی مقررہ دن تک اس پر محنت کی جاتی تھی۔ ایسے تو نہیں یہ مزیدار اچار تیار ہوتا تھا۔جس میں محنت اور اس کی محبت کی خوشبو بھی شامل ہوتی تھی۔ میری ماں وہ تھی جو سردیوں میں ہمارے لئے گرم شال، سویٹر، سکارف، ٹوپیاں اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی تھی۔ کروشیے سے گھر میں مختلف ڈیکوریشن کے میٹس بناتی تھیں۔ گھر میں مربے بناتی جس میں گاجر اور سیب کا مربہ سردیوں کے موسم میں بنایا جاتا تھا ۔میری ماں وہ تھی جو اپنے ہاتھ سے کپڑے دھوتی، بچوں کی پرورش کرتی، مہمانوں کی خدمت کرتی تھی۔۔
سارا دن کام میں مصروف رہتی لیکن کبھی تھکاوٹ کا اظہار نہیں کرتی تھی ۔
آج سب کچھ ہے لیکن وہ سکون نہیں ہے جو اُس وقت میری ماں جیسی عورتوں کے چہروں پر ہوتا تھا اور نہ ہی آج وہ ذائقہ ہے۔
دیکھا جائے تو آج ہر طرح کا آرام و سکون ہے ، سہولت ہے آسائشیں ہیں۔
مشینوں سے سارے کام منٹوں میں ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی ہم خود کو تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں ۔ ہمارے چہروں پر وہ سکون ، وہ مسرت نہیں ہوتی جو میری ماں جیسی محنت کرنے والی عورتوں کے چہروں پر ہوتی تھی ۔ سارا دن کام کے بعد بھی تھکاوٹ کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔
پمپرز کے دور میں ہم بچوں کو پال کر بھی خود کو تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں اور ہماری وہ مائیں جو خود لنگوٹ گیلے ہونے پر راتیں جاگتی تھیں لیکن ہمیں گیلا نہ ہونے دیتی تھیں ۔آج ہر طرح کے کھانے بنالیتے ہیں اور ہوٹلز میں بھی کھاتے ہیں لیکن !! پھر بھی ماں تیرے ہاتھ کی بنی اس روٹی، سالن چٹنی، اچار، لسی ستو کے شربت۔ سبز چائے ، قیمہ آلو، کلیجی ، مغز، سری پائے، قیمہ بھرے کریلے، مٹر گوشت، چنے پلاؤ، زردہ ، حلوہ سویاں، میٹھے چاول ، پکوڑے ، کڑی، کالے چنے ، سفید چنے ، ہر قسم کی دالیں بھی آج کے کھانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
یہ ساری دنیا کے رنگ برنگے کھانے تیرے ہاتھ کے ذائقے کے آگے کچھ بھی نہیں۔ مجھے آج بھی وہ اوجری نہیں بھولتی جسے میں نے کھانے سے انکار کر دیا تھا ۔ پھر بھوک سے تنگ آکر اسی سہ پہر جب سب سو گئے تھے تو چھپ کر کھایا تھا۔ آج بھی اس کا ذائقہ نہیں بھولتا لیکن پھر تم نے اپنی اولاد کی پسند کی خاطر کبھی اوجری نہیں بنائی۔
مجھے وہ اوجری بھی یاد آتی ہےماں ۔
مجھے تم بہت یاد آتی ہو۔
سچ کہوں ماں آج وہ ٹینڈے ، کدو بھی بنا کر کھاتی ہوں جسے کبھی نخروں سے کھاتی تھی لیکن وہ ویسے نہیں بنتے جیسے تم بناتی تھی۔۔
ماں تم جیسی مائیں مجھے اب کہیں نظر نہیں آتیں ۔
حالانکہ میں بھی ماں ہوں لیکن تمہارے جیسا نہ صبر و تحمل ہے، نہ بردباری، نہ وہ برداشت، نہ وہ ہمت اور طاقت، نہ ویسا محنت کا جذبہ، نہ وہ خلوص اور نہ ہی چہرے پر وہ طمانیت۔
شائد ماں تم جیسی مائیں اب پیدا نہیں ہوتیں۔
سچی ماں!! ویسی مائیں اب نہیں ہیں ۔
سچ میں کہیں کھو گئی ہیں۔
اللہ میری ماں کے درجات بلند فرمائے آمین
فوزیہ قریشی
Click Here To Read More About Fozia Qureshi
Comments
Post a Comment