Skip to main content

Tanki Khali Kro By Iftikhar Iffi Sahab


لکھنے بیٹھا ہوں اور دماغ میں کوئی خیال نہیں ۔
یہ مرحلہ جان لیوا ھے ۔
لاکھوں الفاظ مچل رہے ہیں مگر پرونے کے لئے خیال نہیں ۔
خیال گھڑ کے اس پر لکھنا ناانصافی ہے اور میں یہ ناانصافی کرنا نہیں چاہتا ۔
اس لئے آج اس بات پر اکتفا کرونگا کہ بابے بڑے سیانے ھوتے ہیں ۔ بڑی گجی (گہری) بات کہتے ہیں ۔ بظاہر بابوں کے منہ سے نکلی بات بہت آسان لگتی ہے مگر ھوتی مشکل ہے۔
آپ بابا اشفاق احمد صاحب کی اس دعا کو ہی لے لیجئے فرماتے ہیں

بظاہر یہ دعا ہمیں بہت اچھی اور آسان لگتی ہے مگر غور کریں تو زندگی کا فلسفہ چھپا ہے ان دو جملوں میں ۔
دعا کا پہلا حصہ ہر بندے کو اچھا لگتا ہے کہ
"اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے "
ہم سب آسانیاں لینے کو ہر وقت تیار ہیں
مگر اس دعا کا اگلہ جملہ نہایت مشکل مرحلہ ہے۔
"اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین "
کیونکہ میں آسانیاں لینے کو تو شیر ھوں مگر آسانیاں دینے کو ہرگز تیار نہیں ۔ اور آسانیاں دوں بھی تو کسے دوں ؟
اپنے ہم اثروں کو اپنےاحباب کو جو ہر بات میں مجھ سے بحث کرتے ہیں میری ترقی سے جلتے ہیں۔
مقابلہ کرتے ہیں ۔ میرے لئے دل میں کینہ رکھتے ہیں ۔ مجھے زیر کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ نہ ۔ میں ان کو آسانیاں تقسیم نہیں کرنا چاہتا ۔
اور رشتے داروں کو تو بلکل نہیں ۔ یہ شریکے عمر بھر مجھے نیچا دکھانے کی ترکیبیں سوچتے رہے ۔ میرا مذاق اڑاتے رہے مجھے کچوکے دیتے رہے ان زبردستی کے رشتے داروں کو تو کوئی آسانی نہیں دے سکتا ۔ پھر کس کو آسانی دوں؟
نہ ۔ وہ اپنا کماتے ہیں اپنا کھاتے ہیں اور ویسے بھی میرے کڑے وقت میں میرے بھائی کونسا کام آئے اور اگر ایک دو بار مدد کی بھی تو دس بار جتایا تھا ۔
ویسے بھی ان کی بیویاں میری بیوی کو کچھ نہیں سمجھتیں تو پھر ان کو آسانی دینا بنتا ہی نہیں ۔ کس کو آسانی دوں؟
محلے داروں کو؟
قطعآ نہیں یہ ہمسائے تو ھوتے ہی فضول ہیں ان کے بچے میرے بچوں کو مارتے ہیں ۔ یہ لوگ سیدھے منہ بات نہیں کرتے ۔ میرے گھر کی کنسویاں لیتے ہیں ۔ اوپر سے مسکرا کے ملتے ہیں اور پیٹھ پیچھے بکواس کرتے ہیں ان ہمسایوں کو تو میں جوتی پر لکھتا ہوں ۔ آسانی اور ان کے لئے؟
ناں بابا ناں ۔
کیا؟ حکومت کی قرض اتارو مہم میں تو کسی صورت ایک پھوٹی کوڑی نہیں دونگا ارے بھائی یہ ڈاکو ہیں پہلے بھی قرض اتارنے کا لارا لگا کر قوم کو لوٹ چکے ہیں کئی بار ۔ میں نے تو اس وقت بھی کچھ نہیں دیا تھا ۔ اور ٹیکس کیوں دوں؟
ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہوں ۔ اب ایف بی آر کو بھی دوں تاکہ چور کھائیں؟
ہاں منگتے فقیروں کو آسانی دینے کا سوچا جاسکتا ہے مگر ایک منٹ ۔ یہ ہٹا کٹا مسٹنڈا ہاتھ پھیلا رہا ہے ۔ گلا پھاڑ پھاڑ کے مانگ رہا ہے اس کے ہاتھ پیر سلامت ہیں تو کوئی ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کرتا؟
اور یہ مانگت اس کو تو دینا ہی گناہ کبیرہ ہے ۔ شکل سے ظاہر ہے کہ نشہ کرتا ہے اسکو کچھ دیا تو ان پیسوں سے نشہ کرے گا کل کا مرتا آج مرے گا اور گناہ مجھے ملے گا ۔
سوری اس جہاز کی کوئی مدد نہیں کی جاسکتی ۔
یہ ہاتھ پھیلانے والے بچے تو کسی قسم کی آسانی کے حقدار ھو ہی نہیں سکتے ۔ ارے بھائی یہ کوئی مانگنے کی عمر ہے؟
ان کو سکول جانا چاہئے تاکہ پڑھ لکھ کر پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کریں اور ان کے گھٹیا ترین ماں باپ نے انکو مانگنے پر لگا دیا ہے ۔ میں ان بچوں کو دے کر انکی عادت پکی نہیں کرنا چاہتا کل مجھے اللہ کو بھی جواب دینا ہے ۔
معزرت۔
کیا؟
اسکو کچھ دیا جاسکتا ہے کہ اسکا کمانے والا نہیں رہا
مگر نہیں میں اس بیوہ کی بھی کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔ ارے بھائی نہ اس نے عدت کاٹی نہ رنگ برنگے کپڑے پہننا چھوڑے ۔ اور تو اور اس کے گھر میں غیر مردوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ایک آتا ہے دوسرا جاتا ھے ۔ مجھے دیکھ کر یوں چھپ جاتی ہے جیسے میں کوئی موالی ھوں
مرحوم شوہر 4 مرلے کا مکان چھوڑ کر مرا ہے مکان بیچ دے
ارے بھائی اس کے بچوں نے کل ہی نئی سائیکل لی ہے یہ تو خود نوٹ چھاپنے کی مشین ہے اسکو پیسوں کی کیا ضرورت؟
میں اس بیوہ کی بھی کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔
معاف کرو ۔
مگر نہیں ابا اس عمر میں سٹھیا گئے ہیں ہر وقت میری بیوی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں ۔ اور ماں؟
خدا کی پناہ ان کو تو ایک روپیہ بھی نہیں دونگا
جو دو اپنی بیٹی کو بھر آتیں ہیں ۔ سارا دن میری بیوی کے کام میں کیڑے نکالتی ہیں ۔ نوکروں کی طرح سلوک کرتی ہیں ابا کو بھی کوئی آسانی نہیں دی جاسکتی ارے بھائی بہت دیکر دیکھا ہے ۔ سب کچھ چوٹے بیٹے کے کھیسے میں ڈال دیتے ہیں ۔ اور ویسے بھی میرے تین بھائی اور ہیں اور خیر سے اچھا کماتے ہیں یہ ان سے لیں ناں ۔ میرے بچے ابھی چوٹے ہیں ان کے مستقبل کے لئے مجھے آج سے سوچنا ہے ۔ اگر میں ان کو اچھی تعلیم نہ دے سکا تو برباد ھوجائیں گے ۔ میں خدا کی طرف سے ملنے والی آسانی کو سینت کے رکھونگا کل میرے بچوں کے کام آئے گی ۔
یہ سب نفس کی چالاکی ہے جو ہمارے دل میں وسوسے ڈال کر ہمیں آسانی تقسیم کرنے سے روک دیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ نفس کی کوئی بات دلیل سے خالی نہیں ھوتی ۔ جو بندے اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں اور اس کے بندوں پر رحم کرتے ہیں اللہ ان کو یہ ہنر عطا کر دیتا ہے کہ وہ شیطان اور رحمان کی آواز میں فرق کرنا سیکھ جاتے ہیں اور نفس کو بھوکا رکھ رکھ کے اسقدر کمزور اور لاغر کردیتے ہیں کہ پھر نفس ان پر حاوی نہیں ھوپاتا ۔
اور وہ تگڑے بندے اللہ کی طرف سے ملنے والی آسانی کو آگے تقسیم کردیتے ہیں ۔ اور تقسیم کرنے سے رزق کم نہیں ھوتا بلکہ تواتر سے ملنا شروع ھوجاتا ہے ۔
اس کے لئے بڑی عجیب سی مثال ہے مگر پوری بات اس مثال کے بنا سمجھ نہیں آسکتی ۔ ہمارے واش روم میں فلش کے اوپر پانی کی ایک ٹینکی ھوتی ہے ۔ اس ٹینکی میں پانی ہر وقت آتا ھے ۔
کبھی اس ٹینکی کو کھول کر دیکھئے گا پانی مسلسل آتا ہے اور ٹینکی بھرتی جاتی ہے ۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ ٹینکی میں موجود پلاسٹک کا ایک بال پانی بھرنے کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھتا ہے اور پانی کے پائپ کے منہ پر فکس ھوجاتا ہے اور پانی ٹینکی میں گرنا بند ھو جاتا ھے ۔ ہم فراغت کے بعد بٹن دباتے ہیں اور پانی ٹینکی سے نکل کر غلاظت بہا لے جاتا ہے ۔اور پلاسٹک کا بال پانی کے پائپ کے منہ سے ہٹ کر نیچے گر جاتا ہے اور بڑی فراوانی سے پانی کی آمد شروع ھوجاتی ہے ۔ اور پھر ٹینکی بھر جانے پر بال پھر سے پانی کی آمد روک دیتا ہے ۔ دوستو ہماری جیب یا ہمیں ملنے والی آسانیاں بھی فلش کے اوپر لگی پانی کی ٹینکی کی طرح ہیں ۔ جیب بھر جانے پر نہ نظر آنے والا بال رحمتوں اور برکتوں کی آمد روک دیتا ہے ۔ ٹینکی خالی ھوگی تو بھرے گی اسی طرح جیب خالی کروگے تو بھرے گی ۔ اور جیسے ٹینکی کا پانی فلش کی ساری غلاظت بہا لے جاتا ہے اسی طرح جیب خالی کرنے سے ہمارا پیسہ ہمارے گھر کی ساری نحوستیں ساری بیماریاں ساری پریشانیاں اور من کی غلاظت بہا کر لے جاتا ہے ۔
اور ٹینکی کی طرح جیب کا بھی پیچھے سے بہاو کبھی بند نہیں ھوتا ۔ جیب خالی کرتے رہیں اللہ بھرتا رہے گا


Comments

Popular posts from this blog

Ab main Ne Kiya Kiya by Fozia Qureshi | Raaz Ki Batain By Fozia Qureshi | Urdu Afsane By Fozia Qureshi

تحریر فوزیہ_قریشی "اب میں نے کیا کِیا" میں کچھ نہ بھی کروں تب بھی اُن کو لگتا ہے کہ ضرور میں نہ ہی کچھ کیا ہے یوں تو ہماری بیگم کی بینائی بالکل ٹھیک ہے لیکن اُن کو چشمہ پہننے کا بہت ہی شوق ہے۔ یہ کوئی عام چشمہ نہیں ہے بلکہ بہت ہی خاص چشمہ ہے جس کو پہن کر سب دِکھائی دیتا ہے جو کسی کو دِکھائی نہیں دیتا اور وہ کچھ بھی جو ہم نے کبھی کِیا نہ ہو۔ مزے کی بات یہ کہ وہ کبھی بھی، کہیں بھی اچانک سے یہ چشمہ پہن لیتی ہیں۔ کبھی راہ چلتے تو کبھی رات کے اگلے یا پچھلے پہر۔ اس چشمے نے ہمارا اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا، سونا، جینا سب حلال کر دیا ہے۔ جی جی حلال کیونکہ کچھ بھی حرام دیکھنے اور کرنے کی نہ ہمت رہی اور نہ اب وہ پہلی سی جرات۔ شادی کو چھ برس گزر چکے ہیں لیکن ان کو ہم پر رَتی بھر بھی بھروسہ نہیں ہے بیگم کے خوف کی وجہ سے ہم ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔ نہ دائیں دیکھتے ہیں نہ بائیں بس سیدھے کھمبے سے ٹکرا جاتے ہیں۔۔ماتھے پر پڑے گومڑ کو دیکھ کر بھی اِن کو ترس نہیں آتا بلکہ یہی لگتا ہے ضرور ہم کسی کو دیکھ رہے ہونگے تبھی کھمبے سے ٹکرائے۔ یقین جانئے ہم نے ولیمے والے دن

Hum Karam Ke Hindu Aur Dharam Ke Musalman By Iftikhar Iffi Sahab

  کرم کے ھندو اور دھرم کے مُسلمان ھیں بابا   دین   مُحمد   کے   اس   جملے   نے   مُجھے   چونکا   دیا   ،، میں   نے   بابا   دین   مُحمد   کی   سوچ   کو   یکسر   مُسترد   کر   دیا   ،،   بابا   بولا   بچے   کرم   کا   مطلب   عمل   ھے   ھندی   زبان   میں   ،،   کرم   ،،   عمل   کو   کہتے   ھیں   ،،   میں   نے   کہا   بابا   جی   نہ   تو   ھم   اپنے عمل   سے   ھندو   ھیں   اور   نا   اُن   کے   پیرو   کار   ،،   بابا   مُسکُرایا   اور   بولا   ،   بھائی   اگر   میں   ثابت   کر   دوں   کہ   جو   میں   نے   کہا   ویسا   ھی   ھے   تو   معافی   مانگو   گے   ؟؟   میں   نے   کہا   ھاں   مانگونگا   ،،   پر   آپ   آج   مُجھ   سے   نہیں   جیت   سکتے   ،،   بابا   بولا   واک   چھوڑو   آؤ   گھاس   پر   بیٹھ   کر   بات   کرتے   ھیں   ،،   میں   اور   بابا   گُلشن   پارک   کے   ایک   باغ   میں   بیٹھ   گئے   ،   میں   بیقرار   ےتھا   کہ   بابا   جی   اپنی   بات   ثابت   کریں   ، بابا   میرے   چہرے   کے   تاثُر   کو   پہچان   گیا   تھا   بولا   ،   یہ   بتاؤ   کے   نکاح   تو   الله   کا   حکم   ا

Final Presidential Debate | Donald Trump vs Joe Biden | Views & Reviews By Jackie Bruce Khan

President Donald Trump and Democratic Presidential candidate Joe Biden went head to head in the last Debate of the 2020 political decision for a strained yet strategy centered night. President Donald Trump and previous Vice President Joe Biden got down to business in their second and last discussion of the 2020 political race cycle on Oct. 22.  Trump and his Democratic challenger shared the stage at Belmont University in Nashville, Tennessee, before mediator Kristen Welker of NBC News. Thursday's discussion was intended to be the third and last of the political decision season, however the discussion booked for Oct. 15 was dropped, after the president's COVID-19 analysis provoked the Committee on Presidential Debates to make the discussion virtual, and Trump would not take an interest. Biden rather booked a municipal center that night, and the president later planned his own municipal center for a similar time.  The discussion came under about fourteen days in front of Election