یوں تو ہم سب کی فرینڈ لسٹ میں اچھے، بہت اچھے اور سب سے اچھے چند دوست پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ بُرے بھی ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں وہ سچ میں بُرے ہی ہوں۔۔ بس ہمیں اس وقت بُرے لگتے ہیں جب وہ ہمارے مزاج سے مختلف بات کرتے ہیں، تنقید کرتے ہیں یا پھر ہمیں بلا وجہ غصہ دلاتے ہیں تو ہم جھٹ سے اُن پر بُرے کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ ہم سب لوگ بڑے ظرف کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن در حقیقت ہم اتنے اعلیٰ ظرف کے مالک نہیں ہوتے۔ بلکہ اندر سے ہم بالکل کھوکلے اور دوغلے ہوتے ہیں تبھی تو ایسے روئے آئے دن ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ہم دوسروں کی پوسٹ پر جتنا مرضی واویلا کر لیں لیکن جب وہی واویلا وہ بندا ہماری پوسٹ پر کرتا ہے تو ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔
کیوں برداشت نہیں ہوتا ؟
اُس وقت ہمارا حال اُس بلی جیسا ہوتا ہے جو اپنے گھر میں خود کو شیر سمجھتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہی ہم بھی اپنی ٹائم لائن پر خود کو شیر ہی سمجھتے ہیں۔۔
چاہے گھر میں ہماری شیرنی ہم سے زیادہ تَگڑی ہی کیوں نہ ہو؟
یہی وجہ ہے کہ پوسٹ پر جب بھی ہمارے سیاسی، دینی اور سماجی اختلافات ہوتے ہیں تو ہم اپنی رائے تھوپنے کے چکر میں دوسرے کی رائے کو سننے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بات بگڑ جاتی ہے اور ہم اخلاقی سطح سے ہی گر جاتے ہیں پھر ہم ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے گھروں میں جوتوں سمیت گھس کر اُن کی ماں ، بہن ایک کرنے کی کوشش میں اس بیہودہ جنگ کو جیتنے کی آخری کوشش بھی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم یہ جنگ جیت بھی جاتے ہیں۔ پھر فاتح انداز میں اس گلی ، اس کوچے سے کُوچ بھی کر جاتے ہیں لیکن پیچھے ہم اپنا جو امیج چھوڑجاتے ہیں۔
اس کے بارے میں ہم کبھی نہیں سوچتے۔
لیکن!! کبھی غور کیجئے گا اور ضرور سوچئے گا بھی کہ کیا ہم سچ میں یہ لفظی جنگ جیتے ہیں یا نہیں؟
میں مانتی ہوں کہ ہم سب کے خیالات ، مزاج ایک جیسے نہیں ہوتے اور رائے بھی ایک دوسرے کے لئے مختلف ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کسی کے خیالات ہم سے نہیں ملتے تو ہم ان لوگوں کو اظہار خیال کا موقع بھی نہ دیں اور دے دیا ہے تو تحمل سے سُن تو لیں۔ کبھی کبھی ہم سُن بھی لیتے ہیں اور دو چار کھری کھری سنا بھی دیتے ہیں۔ اکثر کھری کھری سُنا دینے کے بعد ہم انہیں فرینڈ لسٹ سے بھی نکال دیتے ہیں اور کبھی کبھی مُروت میں چند ایک کو کسی کونے میں پڑے بھی رہنے بھی دیتے ہیں۔
میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ احترام سب سے پہلا رشتہ ہونا چاہئے۔ کسی بھی رشتے میں چاہے وہ دوستی ہو یا رشتے داری یا فیس بک ، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کا چند دن کا ساتھ ۔۔۔
یہاں ہماری پہچان ہمارے یہی کتابی چہرے ہیں۔ ایسے میں ہمارے الفاظ ، ہماری پوسٹس، ہمارے کمنٹس ہی ان کتابی چہروں میں رنگ بھرتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ رنگ خوشی کے ہوتے ہیں اور کبھی غم کے۔۔خوشیوں اور غم میں بھرے یہ رنگ ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔
اسی سے ہم کسی کے بارے میں اندازے لگاتے ہیں۔ کبھی ہمارے اندازے غلط بھی ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ہمارے لگائے گئے اندازے تیر کی طرح نشانے پر مکمل فِٹ بیٹھتے ہیں۔
اسی طرح ہماری فرینڈ لسٹ میں کچھ وکھری ٹائپ کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بالکل اُن سوئی ہوئی مکھیوں کی طرح ہوتے ہیں جو سارا سال سوئے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی ، جہاں بھی کسی پوسٹ پر فساد کی بُو محسوس ہوئی وہ جھٹ سے آ دھمکتے ہیں اور سارا دن کے صاف مواد کو چھوڑ کر گند پر بِھنبھنانے لگتے ہیں۔ پھر وہ اُس گند کو اوپر نیچے،دائیں بائیں غرض کہ ہر سائڈ سے چاٹتے ہیں۔ بالکل اس کالی مکھی کی فطرت کی طرح جو جہاں جہاں بیٹھتی ہیں وہاں کچھ نہ کچھ خارج کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔۔۔
تب آپ کو اندازہ ہوتا ہے آپ کے پاس چند مکھیاں بھی ہیں۔ جو شائد ایڈ ہی بِِھنبھنانے کے لئے ہوئی تھیں۔ اکثر وہ مکھیاں اپنے پیٹ کو ہلکا کرکے دوبارہ کچھ وقت کے لئے سو جاتی ہیں۔۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گی دوستو اختلاف رکھو، ضرور رکھو اور اس کا اظہار بھی کرو لیکن کوشش کرو احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ یہ فیس بک ، ٹویٹر بس ایک کلک کی مار ہے ان فرینڈ یا بلاک کے بعد تم کہاں ہم کہاں ؟
لیکن یہ یاد رکھنا کہ تمہارا یہی رویہ سائن آؤٹ ہونے کے بعد بھی برسوں یاد رہ سکتا ہے۔
Comments
Post a Comment