خواب ایسا کہ جو نایاب سے وابستہ ہے
ایک پل چین سے رہنے نہیں دیتی دنیا
زندگی پارہ ء سیماب سے وابستہ ہے
تیرے آنے سے بھی آ سکتی ہے جان ِ جاناں
چودھویں رات جو مہتاب سے وابستہ ہے
ساز ِ دل چھیڑنا پڑتا ہے سُروں کی خاطر
نغمگی زخمہ و مضراب سے وابستہ ہے
اس لئے دیکھنے آ جاتے ہیں اپنی صورت
میرے دریائوں سے پانی کی توقع کیسی
آمد ِ آب تو سیلاب سے وابستہ ہے
اس لئے بھی نظر انداز کیا ہے میں نے
میرا دشمن مرے احباب سے وابستہ ہے
حیثیت اس کی زمانے میں نہیں ہے کچھ بھی
آج کل جو ادب آداب سے وابستہ ہے
نیند آتی ہے تو آ جاتی ہے کانٹوں پر بھی
نیند کب اطلس و کمخواب سے وابستہ ہے
روز آ جاتا ہے اک ہنسوں کا جوڑا اس پر
کیا محبت کسی تالاب سے وابستہ ہے
ساعت ِ وصل میں بھی کم نہیں ہوتی باقی
اک خلش سی دل ِ بے تاب سے وابستہ ہے
Comments
Post a Comment