غزل زندگی سے مری بنی ہی نہیں یہ مجھے ٹھیک سے ملی ہی نہیں ۔ وقت ہوتا ہے میرے پاس بہت پر مرے ہاتھ میں گھڑی ہی نہیں ۔ اس کی تعریف کر کے اٹھ آیا کام کی کوئی بات کی ہی نہیں ۔ کیوں میں دنیا کا سوچتا ہی رہوں مجھے دنیا تو سوچتی ہی نہیں ۔ ایک داسی نے بت بنایا مجھے اور اب مجھ کو پوجتی ہی نہیں ۔ آگئی خلق لاش پر رونے جیتے جی تو یہ پوچھتی ہی نہیں ۔ مسئلے اور بھی بہت ہیں مرے محض عشق اور عاشقی ہی نہیں بارے دنیا کے میری رائے ہے یہ بری بھی ہے عارضی ہی نہیں نعمان خان